ہمارے خطے کو اپنے بحرانوں کو حل کرنےکے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے:محمد القرقاوی

دبئی، 3 جنوری، 2023 (وام) ۔۔ کابینہ امور کے وزیر اور عرب حکمت عملی فورم (اے ایس ایف) کے چیئرمین محمد بن عبداللہ القرقاوی نے تین اہم تبدیلیوں پر روشنی ڈالی جو آنے والے مرحلے میں خطے اور دنیاکے منظر نامے کی تشکیل کریں گی۔
اے ایس ایف میں بدھ کو اپنے افتتاحی خطاب کے دوران، الگرگاوی نے کہا کہ اس سال فورم کا انعقاد ایک نازک وقت پر ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج، جیسا کہ ہم بات کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بہت سے یقین بہت زیادہ بدل چکے ہیں، اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی نظام کی نااہلی کے بارے میں سوالات میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تاریخی مرحلے میں، ہمارے خطے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بحرانوں کو خود حل کرے ، اپنے تنازعات کو خود حل کرنے، اور اپنے لوگوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے اپنے ملکوں کے درمیان رابطوں کے قیام میں اہم کردار ادا کرے۔

القرقاوی نے مزید کہا کہ 20 سال قبل نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران، عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اس فورم میں بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر فلسطینی کاز کے لیے ایک منصفانہ حل تلاش کرنے اور عراق کی صورتحال کے لیے ایک فریم ورک کے اندر ایک فوری حل ضرورت پر زور دیا تھا جو اس کے اتحاد کو محفوظ بنائے۔

انہوں نے کہا کہ آج عالمگیریت کے مثبت اثرات اور مشترکہ ثقافتی، اخلاقی اور اقتصادی اقدار پر مبنی ایک بین الاقوامی نظام کے قیام کی اہمیت پر بحث کرنے کے 20 سال بعد، ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جس میں بنیادی انسانی اقدار جیسے انسانی جانوں کا تحفظ، بچوں کا تحفظ اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا حق اختلاف، تقسیم اور شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی اقدار کچھ لوگوں کے لیے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ موزوں سمجھی جاتی ہیں اور بین الاقوامی ایجنڈوں کے مطابق بنیادی معیار کچھ لوگوں پر دوسروں کے مقابلے زیادہ لاگو کیے جاتے ہیں۔

فلسطینی کاز

القرقاوی نے کہا کہ خطے میں سب سے نمایاں تبدیلی فلسطینی کاز کے بے مثال اثرات اور غزہ کی جنگ ہے، جس میں اب تک 22ہزارسے زیادہ جانیں جا چکی ہیں، 57ہزار سے زیادہ زخمی ہیں، غزہ کا 60 فیصد بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، اور 90 فیصد آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔

انہوں نے اس جنگ کو "عشروں میں ایک غیر معمولی انسانی تباہی" قرار دیتے کہا کہ اس جنگ کی ہولناکیوں اور اسے روکنے کے لیے کئی ممالک کی کوششوں کے باوجود ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا غزہ کی جنگ خطے میں پائیدار امن اور فلسطینی ریاست کے قیام کا محرک ثابت ہوگی یا یہ خطے میں مختلف نئے محاذوں پر ایک طویل جنگ کا آغاز ہو گی؟ کیا یہ آخری جنگ ہوگی یا نئی جنگوں کا نقطہ آغاز؟

خلیج کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ

القرقاوی نے کہا کہ خطے میں دوسری تبدیلی خلیجی ممالک کا بڑی اقتصادی طاقتوں اور بااثر عالمی شراکت داروں کے طور پر عروج حاصل کرنا ہے جو سیاسی، اقتصادی، موسمی اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ثالثی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے کوپ28 کی حالیہ کامیاب انعقاد نے دنیا کے ماحولیاتی ایجنڈے کی تشکیل میں خلیجی ممالک کے اہم کردارکو اجاگر کیا۔

قطر کی 2022 ورلڈ کپ کی میزبانی اور2034 ورلڈ کپ کے لیے سعودی عرب کا انتخاب عالمی کھیلوں کے ایجنڈے کی تشکیل میں خلیج کے اہم کردارکو مستحکم کرےگا۔

القرقاوی نے کہا کہ ایکسپو 2020 دبئی کا انعقاد اور ایکسپو ریاض 2030 کے منصوبے دنیا کے ثقافتی ایجنڈے کی تشکیل میں جی سی سی کے اہم شراکت دار ہونے کو اجاگر کرتے ہیں۔

خلیجی ممالک عالمی منظرنامے کی سیاسی اور اقتصادی دونوں جہتوں کو تشکیل دینے میں بااثر شراکت دار کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ سب کے لیے کھلے پن پر مرکوز بین الاقوامی تعلقات میں ایک نئے اصول کو اپناتے ہوئے بڑے اقتصادی بلاکس میں حصہ لے کر توازن برقرار رکھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج، خلیجی ممالک ایک عالمی سرمایہ کاری کے پاور ہاؤس کے طور پر کھڑے ہیں، ان کے خودمختار فنڈز کی مجموعی رقم 3.8 ٹریلین ڈالر ہے - جو دنیا میں سب سے بڑا اور عالمی فنڈز کا 34 فیصد پر مشتمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2023 میں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے مصر، ایتھوپیا اور ایران کے ساتھ ساتھ برکس میں شمولیت اختیار کی، جس سے برکس ممالک کی مشترکہ معیشتیں تقریباً 28 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔

القرقاوی نے بتایا کہ خلیجی ممالک آبادی، سرمایہ کاری، اور اقتصادی پرکشش مراکز ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور ہنر کے حوالے سے بھی ترقی کر چکے ہیں۔ "یہ ان کے اسٹریٹجک ترقیاتی وژن کی بدولت ہے، جس میں معاشی استحکام اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو ان کے ایجنڈوں اور ایکشن پلان میں فوقیت دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک نے معیشت کو ایک بڑے قومی ہدف کے طور پر ترجیح دی ہے، جس نے اپنی بین الاقوامی حیثیت، سیاسی کارکردگی اور نئے عالمی توازن کی تشکیل میں کردار کو نمایاں طور پر بڑھایا ہے۔

انہوں نے سوالات اٹھائے کہ مستقبل میں خلیجی ممالک کی طرف سے ادا کیا جانے والا بین الاقوامی کردار کیسے وضع ہو گا؟ اس کردار کے لیے آگے کیا مواقع اور چیلنجز ہیں؟ اور ہم خلیجی ممالک کے عالمی اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کودوسرے بین الاقوامی نظاموں کے ساتھ تصادم کے بغیر کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پورے خطے کے مستحکم مستقبل کو یقینی بناتے ہوئے خلیجی ممالک اور ان کے ہمسائیوں میں درمیان ترقی اور معاشی تفاوت کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟"

پولرائزیشن میں اضافہ

القرقاوی نے کہا کہ تیسری تبدیلی نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ معاشروں کے اندر بھی - فکری، مذہبی، سیاسی اور سماجی محاذوں پر شدید پولرائزیشن کی صورت میں سامنے آئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مشرق اور مغرب کے درمیان اقدار، سیاسی رجحانات اور بین الاقوامی مسائل کے تناظر میں بڑھتی ہوئی تقسیم دیکھ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ معلومات کا بڑھتا ہوا بہاؤ اور میڈیا افراتفری اس تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔ 2024 میں دنیا بھر کے 75 سے زائد ممالک میں 4 ارب سے زائد افراد پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ "سوال یہ ہے کہ کیا 2024 سماجی تقسیم کو بڑھاتے اور ملکوں اور ثقافتوں کے لیے راستے بدلتے ہوئے نشان زد ہو گا؟ یا یہ ایک ایسا سال ہوگا جہاں دوریاں ختم ہوں گی، نئے روابط اور رشتوں کو پروان چڑھائیں گے؟

نئے اتحاد

القرقاوی نے کہا کہ اے ایس ایف کا اس سال کا ایڈیشن 2001 میں اپنے آغاز کے دو دہائیوں سے زائد عرصے بعد ہورہا ہے، جس کے دوران بین الاقوامی منظر نامے میں تیزی سے جیو پولیٹیکل اور اقتصادی تبدیلیاں، نئے اتحادوں کا ظہور اور بین الاقوامی پولرائزیشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے مثبت نتائج کو خطرہ لاحق ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ آج، ہم نئے رجحانات پر نظر رکھنے کی کوشش کے لیے جمع ہیں، یہ تصور کرنے کے لیے کہ اگلی دہائی ہمیں ایسی دنیا میں کہاں کھڑا کرے گی جو مسلسل تکنیکی تبدیلیوں کا سامنا کر رہی ہے جو اس کے مستقبل کے خطرات کے بارے میں سوالات اٹھاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم، تمام عالمی تبدیلیاں منفی نہیں ہیں۔ درحقیقت، اگر معاشی قدر کے لحاظ سے تجزیہ کیا جائے تو زیادہ تر عالمی رجحانات مثبت ہیں۔ ممالک نے ترقی کی اور کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا۔ مصنوعی ذہانت پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر رہی ہے، طبی پیش رفت کے علاوہ کئی ممالک میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی استحکام آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم برائی سے زیادہ اچھائی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ امن جنگ سے زیادہ دیر تک رہتا ہے، اور امید مایوسی پرغالب آتی ہے ۔ پھر بھی، ہم یہ سوالات اس فورم میں اس لیے پوچھ رہے ہیں تاکہ واقعات کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے اور ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا کی تشکیل کی جا سکے۔

علاقائی اور عالمی پیش رفت کا اندازہ کرنے کے لیے "عرب دنیا کی سیاسی و اقتصادی صوتحال " کے عنوان سے ہونے والے اے ایس ایف میں دنیا بھر سے تزویراتی ماہرین اور فکری رہنما شرکت کررہے ہیں۔


ترجمہ۔تنویرملک