دبئی، 27 مئی، 2025 (وام)--دبئی میڈیا انکارپوریٹڈ کے چیئرمین، عزت مآب شیخ ہاشر بن مکتوم بن جمعہ المکتوم نے کہا کہ ایک وقت تھا جب اماراتی نوجوانوں کے لیے میڈیا میں قدم رکھنا نہایت دشوار تھا، لیکن مسلسل محنت، بصیرت، اور قومی عزم نے آج کے ترقی یافتہ میڈیا منظرنامے کی بنیاد رکھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عرب میڈیا فورم کے دوران منعقدہ سیشن "میڈیا کے بانیوں اور تحریک کے علمبرداروں سے گفتگو" میں کیا، جس میں انٹرویو نگار روزنامہ البیان کے ایڈیٹر انچیف، حامد بن کرم تھے۔
سیشن میں متعدد اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی، جن میں نیشنل میڈیا آفس اور یو اے ای میڈیا کونسل کے چیئرمین، شیخ عبداللہ بن محمد بن بُطی الحامد؛ دبئی کلچر اینڈ آرٹس اتھارٹی کی چیئرپرسن، عزت مآب شیخہ لطیفہ بنت محمد بن راشد المکتوم؛ دبئی میڈیا کونسل کی وائس چیئرپرسن و منیجنگ ڈائریکٹر، مونا غانم المری؛ اور سیکرٹری جنرل نہال بدری شامل تھے۔
شیخ ہاشر بن مکتوم نے اپنے دہائیوں پر محیط میڈیا کیریئر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ دبئی میں میڈیا کی شروعات ایک دو رکنی میونسپل پریس آفس سے ہوئی، اور اس وقت صرف ایک اخبار "دبئی نیوز" ہفتہ وار شائع ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امارات کے اتحاد کے بعد قومی میڈیا میں دلچسپی بڑھی اور "دبئی نیوز" نے رنگین اخبارات کی اشاعت میں پہل کی، جو بعد ازاں یومیہ اخبار میں تبدیل ہو گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دبئی کے سابق حکمران شیخ راشد بن سعید المکتوم نے میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ٹیلی وژن اور سرکاری اخبارات کی بنیاد رکھنے میں بھرپور تعاون کیا۔ اس دور کو انہوں نے "تشکیل کا دور" قرار دیا، جہاں وہ دن کے اوقات میں ٹی وی نشریات کی نگرانی کرتے اور شام کو "البیان" کے ادارتی امور انجام دیتے تھے۔
شیخ ہاشر بن مکتوم نے موجودہ دور میں روایتی میڈیا، خاص طور پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کی عالمی سطح پر زوال پذیر کیفیت پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی تیز رفتار ترقی نے ان اداروں کے لیے فوری جدت اور ٹیکنالوجی اپنانے کی ضرورت بڑھا دی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا میں مہارت اور تخصیص کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، صحافیوں اور نشریاتی ماہرین کو سیاست، معیشت، یا کھیل جیسے مخصوص موضوعات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ کوریج کی گہرائی اور اعتبار میں اضافہ ہو۔ انہوں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ پڑھنے، تحقیق کرنے، اور خود تخلیق کرنے کی عادت ڈالیں، نہ کہ صرف دوسروں کا مواد نقل کریں۔
شیخ ہاشر نے میڈیا اداروں پر زور دیا کہ وہ نوجوانوں کے لیے ایسے پروگرامز تیار کریں جو نہ صرف معاشرے کی خدمت کریں بلکہ اس کی فکری و ثقافتی سطح کو بھی بلند کریں۔ انہوں نے کہاکہ، "میری خواہش ہے کہ میڈیا صرف تجارتی سطح تک محدود نہ رہے بلکہ وہ ایسی حقیقی قدر پیدا کرے جو سماج کو فائدہ دے۔"
اسی فورم کے دوران منعقدہ ایک اور سیشن "دبئی فلم کے بانی، مطروک ناصر کے ساتھ گفتگو" میں تجربہ کار اماراتی ہدایت کار مطروک ناصر نے اپنی فنی زندگی کے تجربات نوجوانوں سے شیئر کیے۔ ناصر، جو دبئی میں ایک پروڈکشن کمپنی کے بانی ہیں، نے بتایا کہ ان کے تخلیقی سفر کا آغاز بچپن میں ہوا، جب ان کے ایک استاد نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا۔
انہوں نے برطانیہ میں سینما اور ٹیلی وژن کی تعلیم حاصل کی اور عالمی میڈیا اداروں سے تربیت لی۔ ان کا کہنا تھا، "میرے لیے صرف ہدایت کار بننا مقصد نہیں تھا، بلکہ اس فن میں مکمل مہارت حاصل کرنا اصل خواب تھا۔"
ناصر نے نوجوان ہدایت کاروں کو مشورہ دیا کہ وہ ہدایت کاری سے پہلے فلم سازی کے تمام پہلوؤں — جیسے لائٹنگ، ایڈیٹنگ، ڈیکور، اور مونٹیج — میں مکمل مہارت حاصل کریں۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت کو فلم سازی میں ایک مثبت پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ اس سے تخلیقی صلاحیتوں کو تقویت ملتی ہے۔
انہوں نے نوجوان اماراتیوں پر زور دیا کہ وہ فلم کے ہر پہلو کو سیکھنے میں سنجیدگی اختیار کریں اور ایسی کہانیاں پیش کریں جو دبئی کی روح، ثقافت، اور تاریخ کو اجاگر کریں۔