بیجنگ، 4 جون (وام)--چین میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تیز رفتار ترقی نے اعلیٰ تعلیم کے منظرنامے کو ازسرنو تشکیل دینا شروع کر دیا ہے، جہاں جامعات قومی حکمت عملیوں اور صنعتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔
چائنا ڈیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2018 میں جب پہلی مرتبہ 35 چینی جامعات نے اے آئی کے انڈرگریجویٹ پروگرامز کا آغاز کیا، اس وقت سے اب تک یہ شعبہ نمایاں ترقی کر چکا ہے۔ رواں برس تک ملک بھر میں 626 سے زائد تعلیمی ادارے اے آئی سے متعلقہ ڈگری پروگرامز پیش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 2017 میں چینی کابینہ کی جانب سے مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے تین مراحل پر مشتمل منصوبہ پیش کیے جانے کے بعد قومی اور علاقائی سطح پر پالیسیوں میں اے آئی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ وزارت تعلیم نے 2022 میں ذہین سائنس و ٹیکنالوجی کو اولین درجے کی بین الشعبہ جاتی (interdisciplinary) تعلیمی شاخ قرار دے کر اس میدان کو ادارہ جاتی حیثیت فراہم کی۔
ہونان صوبے کے شہر چانگشا میں قائم چانگشا یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسکول آف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا قیام اس رجحان کی ایک نمایاں مثال ہے، جو جنوری میں آٹومیشن، روبوٹکس اور اے آئی پروگرامز کو یکجا کر کے بین الشعبہ جاتی مہارت پیدا کرنے کے لیے قائم کیا گیا۔
ملازمت کے امکانات اس تعلیمی رجحان کو آگے بڑھانے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں مذکورہ اسکول سے فارغ التحصیل 90 فیصد اے آئی اور آٹومیشن کے طلباء کو روزگار حاصل ہوا، جو ادارے کے عمومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔
بیجنگ جیاوٹونگ یونیورسٹی میں اے آئی کو روایتی انجینیئرنگ تعلیم میں ضم کیے جانے کو ایک وسیع تر تعلیمی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی کے اسکول آف میکینیکل، الیکٹرانک اینڈ کنٹرول انجینیئرنگ کے وائس ڈین لیو یوئمنگ کے مطابق، ذہین وہیکل انجینیئرنگ اور روبوٹکس انجینیئرنگ جیسے پروگرامز اسمارٹ مینوفیکچرنگ اور ریل ٹرانزٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔