کیمبرج، 2 جولائی، 2025 (وام) -- امریکا کی معروف تعلیمی و تحقیقی درسگاہ، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے سائنس دانوں نے ایک جدید 'ببل ریپ' نما آلہ تیار کیا ہے، جو شمالی امریکا کے سب سے خشک علاقے 'ڈیتھ ویلی' میں بھی ہوا سے پینے کے قابل پانی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق، یہ نیا واٹر ہارویسٹر (پانی جمع کرنے والا آلہ) دنیا کے ان علاقوں کے لیے ایک بڑی امید بن سکتا ہے جہاں محفوظ اور قابلِ رسائی پینے کے پانی کا حصول دشوار ہے۔ یہ آلہ وہاں بھی کام کرتا ہے جہاں ہوا میں معمولی سا بخاراتی پانی بھی موجود ہو۔
یہ آلہ ہائیڈروجل نامی ایک انتہائی پانی جذب کرنے والے مادے سے تیار کیا گیا ہے، جسے بالکل کھڑکی کی ساخت کی طرح دو شیشوں کے درمیان رکھا گیا ہے۔ رات کے وقت یہ ڈیوائس فضا سے پانی کے بخارات جذب کرتا ہے، جبکہ دن میں شیشے پر خاص ٹھنڈا رکھنے والی کوٹنگ کی وجہ سے بخارات پانی میں تبدیل ہو کر قطرات کی صورت نیچے بہہ جاتے ہیں، جہاں ایک ٹیوب سسٹم میں جمع ہوتے ہیں۔
ہائیڈروجل کو گول ابھری ہوئی گنبد نما شکل دی گئی ہے، جو بلبلے دار پلاسٹک (bubble wrap) جیسی لگتی ہے۔ یہ ساخت اس کی سطحی رقبہ بڑھا دیتی ہے، جس سے یہ زیادہ مقدار میں پانی جذب کر سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے اس آلے کو ایک ہفتے تک 'ڈیتھ ویلی' میں جانچا — جو کہ دنیا کا سب سے گرم اور شمالی امریکا کا سب سے خشک علاقہ ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ آلہ روزانہ ایک چوتھائی سے لے کر دو تہائی کپ پانی (تقریباً 57 سے 161 ملی لیٹر) تک جمع کر سکتا ہے۔ زیادہ مرطوب علاقوں میں یہ مقدار مزید بڑھ سکتی ہے۔
یہ آلہ بجلی کے بغیر کام کرتا ہے اور پچھلی کوششوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک پینل کسی ایک گھر کی مکمل ضرورت تو پوری نہیں کر سکتا، لیکن یہ کم جگہ لیتا ہے، جس کی وجہ سے متعدد پینلز ایک ساتھ لگا کر ایک گھر کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم کا اندازہ ہے کہ اگر کسی مقام پر 8 پینلز (1x2 میٹر) نصب کیے جائیں، تو وہ وہاں کے رہائشیوں کو کافی پینے کے پانی کی فراہمی ممکن بنا سکتے ہیں۔ یہ آلہ پانی کی بوتلوں کے اخراجات کے مقابلے میں ایک ماہ میں اپنی لاگت پوری کر لیتا ہے اور کم از کم ایک سال تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔
سائنس دانوں نے پانی کے معیار سے جُڑے ایک پرانے مسئلے کا بھی حل پیش کیا ہے۔ عموماً ہائیڈروجل میں شامل لیتھیم نمکیات پانی میں شامل ہو کر اسے غیر محفوظ بنا دیتے ہیں، مگر نئی تکنیک میں یہ لیکج کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔
ایم آئی ٹی کے پروفیسر شوانہے ژاؤ کے مطابق اب یہ ٹیکنالوجی مزید بڑے پیمانے پر یا متوازی پینلز میں تیار کی جا سکتی ہے تاکہ پینے کے پانی کی قلت کے شکار علاقوں میں عملاً مدد فراہم کی جا سکے۔
تحقیقی ٹیم آئندہ اس آلے کو مزید کم وسائل والے علاقوں میں آزمانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ مختلف حالات میں اس کی کارکردگی کا مکمل اندازہ لگایا جا سکے۔