ابوظہبی، 5 جولائی (وام)--متحدہ عرب امارات نے ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے دنیا کا دوسرا بہترین ملک بن کر عالمی سطح پر اپنی ممتاز پوزیشن مزید مستحکم کر لی ہے۔ 2025 کی عالمی درجہ بندی میں یہ درجہ، یو اے ای کی مستقبل بین پالیسیوں اور ڈیجیٹل معیشت میں قائدانہ کردار کا مظہر ہے۔
ویزا گائیڈ کے "ڈیجیٹل نومیڈ ویزا انڈیکس" کے مطابق، یو اے ای نے 2023 کی چوتھی پوزیشن سے ترقی کرتے ہوئے 2025 میں دوسری پوزیشن حاصل کی، جب کہ اسپین پہلے نمبر پر رہا۔
امیگرنٹ انویسٹ کی رپورٹ کے مطابق، یو اے ای نے مونٹی نیگرو، بہاماز اور ہنگری جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی جگہ بنائی۔ اس درجہ بندی میں انٹرنیٹ کی رفتار، ٹیکس پالیسی، رہائشی اخراجات، صحت کی سہولتیں، اور سلامتی جیسے اہم پہلو شامل تھے، جن میں یو اے ای نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
آج ریموٹ ورک کوئی عارضی رجحان نہیں بلکہ 800 ارب ڈالر کی عالمی معیشت بن چکا ہے، اور دنیا بھر کی حکومتیں اس باصلاحیت ورک فورس کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس موقع پر عرب ڈیجیٹل نومیڈز پلیٹ فارم کے بانی محمد العارد نے کہاکہ، "یو اے ای اس دوڑ میں صرف شریک ہی نہیں بلکہ قائد ہے۔ میں نے شارجہ میں ذاتی طور پر اعلیٰ معیار کی ڈیجیٹل سہولتیں، تیز رفتار انٹرنیٹ، کو-ورکنگ اسپیسز، اور بین الاقوامی ثقافتی ہم آہنگی کا مشاہدہ کیا۔"
ان کے مطابق، یو اے ای ان ڈیجیٹل نومیڈز اور اسٹارٹ اپ بانیوں کے لیے ایک پرکشش مقام ہے جو قانونی استحکام، تحفظ، اور بہتر طرزِ زندگی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ، "دبئی اور ابوظہبی آج عالمی ڈیجیٹل نقشے پر نمایاں مقامات بن چکے ہیں۔"
محمد العارد نے مزید کہا کہ دبئی کو بینکاک، بارسلونا اور کیپ ٹاؤن جیسے شہروں کے ساتھ ایک مکمل ڈیجیٹل کاروباری مرکز قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ابوظہبی کے "ورچوئل ورکنگ پروگرام" اور دبئی کے "ریموٹ ورک ویزا" کو ایسے اقدامات کے طور پر سراہا جو اعلیٰ مہارت والے پیشہ ور افراد کو متوجہ کرتے ہیں۔
"ریمورک360" کے مطابق، دبئی دنیا کا سرفہرست شہر ہے جہاں ریموٹ ورک کو ترجیح دی جاتی ہے، جب کہ ابوظہبی بھی چوتھے نمبر پر رہا۔
یو اے ای نے مارچ 2021 میں ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے ایک سالہ قابل تجدید ویزا متعارف کرا کے اس عالمی رحجان میں قائدانہ کردار ادا کیا۔
آج یہ طرزِ زندگی عالمی سطح پر عام ہو چکا ہے، جسے تقریباً چار کروڑ افراد اپنا چکے ہیں۔ اگر یہ ایک قوم ہوتے، تو دنیا کی 41ویں بڑی آبادی کے برابر ہوتے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2035 تک ایک ارب افراد — یعنی دنیا کی ایک تہائی ورک فورس — ڈیجیٹل نومیڈز پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ 5G، انٹرنیٹ آف تھنگز، اور ہائبرڈ ورک ماڈلز کی مانگ اس تبدیلی کو مزید رفتار دے رہی ہے — اور یو اے ای اس تبدیلی کا ممکنہ عالمی مرکز بننے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
محمد العارد نے مشورہ دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی اور مقامی ڈیجیٹل نومیڈ کمیونٹیز سے براہِ راست رابطے بڑھائے، سستی رہائش کی سہولتوں کو فروغ دے، اور قدرتی و ثقافتی کشش کو دنیا بھر میں مؤثر انداز میں اجاگر کرے تاکہ مزید ٹیلنٹ کو متوجہ کیا جا سکے۔