یو اے ای میں روزانہ 200,000 سے زائد سائبر حملے، اہم شعبے متاثر

ابوظہبی، 20 جنوری 2025 (وام) – یو اے ای سائبر سیکیورٹی کونسل نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں اہم شعبوں کو روزانہ 200,000 سے زائد سائبر حملوں کا سامنا ہے۔ یہ حملے 14 ممالک سے تعلق رکھنے والے سائبر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے کیے گئے، جنہیں ٹریک کر کے ان کے حملوں کے مقامات کی درست نشاندہی کی گئی اور جدید عالمی طریقوں سے مؤثر انداز میں ناکام بنایا گیا۔

کونسل کے مطابق، سائبر دہشت گرد حملے کئی اہم شعبوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ شعبہ حکومتی رہا، جو مجموعی حملوں کا 30 فیصد بنتا ہے۔ مالیاتی اور بینکاری شعبے کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبے پر حملوں کی شرح 7 فیصد رہی، جبکہ ٹیکنالوجی، ہوابازی، اور اسپتالوں کے شعبوں کو 4 فیصد حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ باقی شعبے ان حملوں کے 44 فیصد کے ذمے دار ہیں۔

یہ حملے مختلف نوعیت کے تھے، جن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے پر حملے نمایاں رہے، جو مجموعی حملوں کا 40 فیصد بناتے ہیں۔ فائل شیئرنگ کے ذریعے کیے گئے حملے 9 فیصد جبکہ ڈیٹا بیس کی کمزوریوں کو نشانہ بنانے والے حملے 3 فیصد پر مشتمل تھے۔ اس کے علاوہ، "بلیک کیٹ" جیسے مستقل خطرات کی وجہ سے رینسم ویئر حملے مجموعی حملوں کا 51 فیصد رہے۔

قومی سائبر سیکیورٹی نظام نے حملوں کی اقسام کا گہرائی سے تجزیہ کیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ غلط کنفیگریشن کے باعث 27 فیصد حملے ہوئے۔ اس کے علاوہ مالویئر 22 فیصد حملوں کا سبب بنا، جبکہ اسکیننگ اور لاگ ان کوششوں اور غیر مجاز رسائی کی شرح 15 فیصد رہی۔ اسی طرح فشنگ حملے 10 فیصد اور غیر قانونی سرگرمیاں اور ویب حملے 11 فیصد حملوں میں شامل تھے۔

کونسل نے سب سے خطرناک ہیکنگ طریقوں کی نشاندہی کی، جن میں سروس ڈینائل حملے 39 فیصد، ڈیٹا لیک اور انکرپشن حملے 37 فیصد، انٹرنیٹ کنیکٹڈ ایپلیکیشن کی خلاف ورزیاں 24 فیصد، اور رینسم ویئر حملے 7 فیصد شامل ہیں۔

کونسل نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی سائبر حملے بڑھ رہے ہیں، جن میں ڈیپ فیک، سوشل انجینئرنگ، اور مالویئر میں AI کا استعمال شامل ہے۔ یہ حملے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کر رہے ہیں اور جدید تکنیکوں کے بغیر ان کا پتہ لگانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

سائبر سیکیورٹی کونسل نے تمام سرکاری اور نجی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ سائبر سیکیورٹی کے معیارات پر سختی سے عمل کریں تاکہ ان خطرناک حملوں سے بچا جا سکے اور ڈیجیٹل نظاموں کو محفوظ رکھا جا سکے۔