جنیوا، 13 مارچ، 2025 (وام) – اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے میانمار میں شدید غذائی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ یہ بگڑتی ہوئی صورتحال ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔
جنیوا میں جاری کردہ ایک بیان میں، ماہرین، بشمول خوراک کے حق سے متعلق خصوصی نمائندے مائیکل فخری اور میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال پر خصوصی نمائندے تھامس اینڈریوز، نے نشاندہی کی کہ 19.9 ملین سے زائد افراد فوری انسانی امداد کے محتاج ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ فروری 2021 سے ملک بھر میں جاری تنازعہ مزید شدت اختیار کر چکا ہے، اور اس کے نتیجے میں 2025 تک تقریباً 15.2 ملین افراد – جو میانمار کی مجموعی آبادی کا تقریباً ایک تہائی بنتے ہیں – شدید غذائی قلت کا سامنا کریں گے۔
بیان میں متنبہ کیا گیا کہ 2025 میں بنیادی خوراکی اشیاء کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ متوقع ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔
مزید برآں، ماہرین نے کہا کہ حال ہی میں جاری کردہ امریکی صدارتی حکم، جس کے تحت غیر ملکی امداد معطل کر دی گئی ہے، میانمار اور پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے پڑوسی ممالک کے لیے سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
بیان میں رخائن ریاست (Rakhine State) کی صورتحال کو نہایت سنگین قرار دیا گیا، جہاں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے مطابق، خطہ قحط کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور دو ملین افراد فاقہ کشی کے خطرے میں ہیں۔
ماہرین نے نشاندہی کی کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھریلو آمدنی میں کمی کے باعث خوراک کے معیار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کی وجہ سے 6 سے 23 ماہ کی عمر کے 40 فیصد سے زائد بچے غذائیت سے بھرپور اور متنوع خوراک سے محروم ہیں، جو ان کی بقا اور نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ میانمار کے وسیع حصوں میں بار بار انٹرنیٹ بندش کے باعث خوراک کی قلت، محرومی اور غذائی قلت کی درست رپورٹنگ میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، جس سے امدادی کارروائیاں متاثر ہو رہی ہیں۔