عرب میڈیا سمٹ 2025 کا افتتاح، شیخ احمد بن محمد کی سربراہی میں عالمی شخصیات کی شرکت

دبئی، 27 مئی، 2025 (وام)--دبئی کے نائب حکمران اور دبئی میڈیا کونسل کے چیئرمین، عزت مآب شیخ احمد بن محمد بن راشد المکتوم نے عرب میڈیا سمٹ 2025 کا باضابطہ افتتاح کیا، جس میں علاقائی و بین الاقوامی سطح کی ممتاز قیادت نے شرکت کی۔

اس تین روزہ سمٹ میں تقریباً 8,000 میڈیا ماہرین، پالیسی ساز، اور مواد تخلیق کرنے والے افراد شریک ہیں، جو عرب دنیا کے سب سے بڑے میڈیا پلیٹ فارم کو فکری قیادت، پالیسی مکالمے، اور مستقبل کے بیانیے کی تشکیل کے مرکز کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

افتتاحی تقریب کے موقع پر شیخ احمد بن محمد کے ہمراہ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب، شیخ الازہر اور مسلم کونسل آف ایلڈرز کے صدر؛ لبنان کے وزیر اعظم ڈاکٹر نواف سلام؛ یو اے ای اولمپک کمیٹی کے صدر، عزت مآب شیخ منصور بن محمد بن راشد المکتوم؛ دبئی کلچر اینڈ آرٹس اتھارٹی کی چیئرپرسن، شیخہ لطیفہ بنت محمد بن راشد المکتوم؛ اور عرب و عالمی میڈیا کے اعلیٰ حکام، وزراء، اور تخلیقی افراد شریک تھے۔

شیخ احمد بن محمد نے سمٹ کے مقام کا دورہ کیا اور منتظمین کی جانب سے کی جانے والی منظم تیاریوں اور سمٹ کی متنوع سرگرمیوں کو سراہا۔ انہوں نے سمٹ کے ایجنڈے کو موجودہ میڈیا چیلنجز سے ہم آہنگ اور خطے کے مستقبل کی رہنمائی کرنے والا قرار دیا۔

افتتاحی اجلاس میں الشیخ پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب نے کلیدی خطاب کیا، جس میں انہوں نے عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم، نائب صدر، وزیر اعظم اور حکمران دبئی کی بصیرت پر مبنی قیادت کو خراج تحسین پیش کیا، جن کی رہنمائی میں یہ اہم پلیٹ فارم تشکیل پایا جو عرب اور اسلامی دنیا کے فکری و میڈیا مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔

شیخ الازہر نے عرب میڈیا کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تیزرفتار، باہم مربوط دنیا میں اخلاقی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے میڈیا کا موثر کردار ناگزیر ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ اجتماع ایک عملی، اجتماعی عرب میڈیا حکمت عملی کی تشکیل میں مدد دے گا، جو خطے کی حقیقتوں کی عکاسی کرے اور نوجوان نسل کو ٹیکنالوجی کے خطرات سے بچانے میں معاون ہو۔

اپنے خطاب میں انہوں نے بعض ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی جانب سے پھیلائے جانے والے منفی پیغامات پر بھی خبردار کیا، جن سے فطری اخلاقیات، معاشرتی اقدار اور حق و باطل کی تمیز دھندلا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ، "ہم، عرب اور مسلمان، مغرب میں ان میڈیا بیانیوں سے متاثر ہوئے ہیں جو اسلام کو تشدد، انتہا پسندی، اور خواتین پر ظلم سے جوڑتے ہیں۔ ایسے بیانیے اسلام کو ایک سیاسی نظریے یا شدت پسند تحریک کے طور پر پیش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔"

شیخ الازہر نے اپنے خطاب میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں اسلام سے متعلق گمراہ کن بیانیے اب خود خطے کے اندر بھی سرایت کر چکے ہیں، جو عرب میڈیا کی فکری ساخت کو منفی طور پر متاثر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض عناصر نے ایسی مصنوعی ثقافت کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے، جو عربی یا اسلامی فکر کی ہر جہت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ اس رویے نے موجودہ چیلنجز کو مزید گمبھیر کر دیا ہے اور ہماری تہذیبی شناخت پر فخر کے احساس کو مجروح کرتے ہوئے ہماری موجودہ فہم اور ورثے کے درمیان خلیج کو وسیع کیا ہے۔

شیخ الازہر نے مشرق وسطیٰ میں جاری بحران، جو اب اپنے انیسویں ماہ میں داخل ہو چکا ہے، پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عرب میڈیا کی تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی استقامت کو اجاگر کرے، حقائق کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کرے اور فلسطینی مسئلے کو دنیا بھر کے سامعین و ناظرین کے دلوں اور ذہنوں میں زندہ رکھے۔

انہوں نے بتایا کہ، "ہمیں اسلاموفوبیا کے خلاف بھرپور میڈیا کوششیں کرنا ہوں گی اور مغربی معاشروں میں اس کے منفی اثرات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔ یہ محض ایک خودساختہ افسانہ ہے، جو اسلام کے پرامن اور بقائے باہمی کے اصولوں کو مسخ کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے، حالانکہ اسلامی شریعت میں انسان، حیوان، نباتات بلکہ بے جان اشیاء تک کے حقوق کا تحفظ موجود ہے۔"

اپنے خطاب کے دوران انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ مشرقی تہذیبوں کی اخلاقی، سماجی، خاندانی اور انسانی اقدار کو مٹانے کی منظم کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ان اخلاقی بنیادوں کو کمزور کرنا ان تہذیبوں کی بقا کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ "یہ سب کچھ ہم سب پر، خصوصاً میڈیا سے وابستہ افراد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ ہم ان فکری آندھیوں کے خلاف دانشمندانہ اور پرعزم ردعمل اختیار کریں تاکہ ہم اپنی نسلوں اور اپنی سرزمین کو اجنبیت، زوال اور فکری تحلیل سے محفوظ رکھ سکیں۔"

ٹیکنالوجی کے تیزرفتار ارتقاء پر تبصرہ کرتے ہوئے، الشیخ احمد الطیب نے کہا کہ مصنوعی ذہانت سمیت دیگر ترقیاتی ایجادات کو اخلاقی اقدار اور پیشہ ورانہ ضوابط کے تابع رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہتھیار نہ بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ، "ان ٹیکنالوجیز کو ان کے اعلیٰ انسانی مقاصد سے منحرف ہونے سے روکنے کی تمام تر ذمہ داری ماہرین اور قانون سازوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ مقاصد کسی بھی طرح کی بالا دستی، تسلط یا ثقافتی جارحیت سے پاک ہونے چاہئیں۔"

شیخ الازہر نے انکشاف کیا کہ انہوں نے مرحوم پوپ فرانسس کے ساتھ مل کر مصنوعی ذہانت کے اخلاقی ضوابط پر مشتمل ایک مشترکہ دستاویز کی تیاری کا آغاز کیا تھا۔ "ہم اس منصوبے کو مکمل کرنے کے قریب تھے، لیکن تقدیر نے پوپ کے انتقال کے ذریعے ہمیں روک دیا۔ اب بھی ویٹیکن کی نئی قیادت سے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے رابطے جاری ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ جلد پایۂ تکمیل کو پہنچے گا، ان شاء اللہ!" انہوں نے کہا۔

شیخ الازہر نے میڈیا سے وابستہ افراد کو درپیش سنگین خطرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، "ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے ان فلسطینی صحافی بھائیوں کو یاد رکھیں جنہوں نے سچ کی حرمت، حقیقت کے اظہار اور قلم کی عزت کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ غزہ میں دو سو سے زائد صحافی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ کئی شدید زخمی ہوئے، اعضا سے محروم ہوئے، ان کے گھر تباہ ہوئے یا ان کے اہل خانہ شہید یا بے گھر ہوئے۔"

انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر عرب میڈیا کے تمام کارکنان سے اپیل کی کہ وہ ایک ایسی میڈیا حکمتِ عملی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں جو سچائی کی حفاظت، قومی اقدار کی پاسداری اور تہذیبی شناخت کے تحفظ کی ضامن ہو۔ انہوں نے کہا، "الازہر اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔"

عرب میڈیا سمٹ کی افتتاحی تقریب میں لبنان کے وزیر اعظم، نوّاف سلام نے بھی کلیدی خطاب کیا، جس میں انہوں نے متحدہ عرب امارات اور دبئی کی جانب سے سمٹ کی میزبانی اور عرب یکجہتی کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے صدر عزت مآب شیخ محمد بن زاید النہیان، اماراتی قیادت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ، "یو اے ای میں تقریباً ایک لاکھ نوے ہزار لبنانی باشندے مقیم ہیں، جو یہاں دوسرے وطن میں سکونت، تحفظ اور معیاری زندگی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ امارات کے عظیم الشان انسانی موقف کی عکاسی کرتا ہے۔"

اپنے خطاب میں وزیر اعظم نوّاف سلام نے کہاکہ، "ہم ایک ایسے غیر معمولی دور میں جمع ہوئے ہیں، جہاں میڈیا صرف حقیقت کا عکاس نہیں بلکہ حقیقت کو تشکیل دینے والا عنصر بن چکا ہے۔ یہ رائے عامہ بناتا ہے، امن کو فروغ دیتا ہے، اور بدقسمتی سے بعض اوقات انتشار بھی پھیلاتا ہے۔"

انہوں نے میڈیا کے ذمہ دارانہ کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سچائی کو ہمیشہ ترجیح دی جانی چاہیے۔ "میں آپ سے بطور ایک وکیل مخاطب ہوں، جو یہ جانتا ہے کہ سچائی مفروضوں پر نہیں بلکہ غیر جانبداری، دلائل اور شواہد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ انصاف اور صحافت دونوں کے لیے سچائی کی تلاش ایک مقدس مشن ہے، اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تعصبات سے مکمل نجات ہے۔"

انہوں نےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی ترقی نے رابطے کے ذرائع کو یکسر بدل کر دنیا کو ایک مربوط "الیکٹرانک گاؤں" میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی کے پاس ایک یا زائد موبائل ڈیوائسز ہیں، جب کہ 67 فیصد سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق، 58 فیصد افراد خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل کرتے ہیں، جن میں سے کئی ذرائع ناقابل تصدیق ہوتے ہیں۔

انہوں نے لبنان کی تعمیر نو، ترقی اور اصلاحات کے عمل کو ایک مسلسل قومی منصوبہ قرار دیا، جس کا مقصد ایسا ریاستی نظام تشکیل دینا ہے جو قانون کی حکمرانی، مضبوط اداروں، خودمختاری اور آزاد فیصلوں پر مبنی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ لبنان ایک ایسی عرب شناخت کا حامل ملک ہے جو دنیا کے لیے کھلا ہے اور مشرق و مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

نوّاف سلام نے اس بات پر زور دیا کہ لبنان کو درپیش موجودہ جدوجہد صرف معاشی یا سیاسی نوعیت کی نہیں بلکہ شعور اور الفاظ کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کوئی تعیش نہیں بلکہ اصلاحات اور بحالی کے سفر میں ایک بنیادی ضرورت ہے، اور انہوں نے میڈیا سے مطالبہ کیا کہ وہ سچائی کا ساتھ دے، پیشہ ورانہ دیانت داری اختیار کرے، اور غیر جانب دارانہ کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہاکہ، "ہم خطے میں ایک تاریخی دوراہے پر کھڑے ہیں، اور ہمیں ایک نئے میڈیا بیانیے کی ضرورت ہے جو تقسیم اور حاشیہ برداری کی کوششوں کا مقابلہ کرے اور امید کا چراغ روشن رکھے۔ ہم ایک ایسا جدید، متحرک اور متنوع عرب میڈیا چاہتے ہیں جو ماضی میں نہیں بلکہ مستقبل میں جینے کی راہ دکھائے، جو آزادی کا محافظ ہو، نہ کہ اس کا غلط استعمال کرے۔"

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر اعظم نوّاف سلام نے دبئی، جو وژن اور امنگ کا شہر ہے، سے ایک پیغام دیتے ہوئے کہا: "میری اپیل ہے کہ ہر آزاد میڈیا کارکن سچ کا نگہبان، شعور کا معمار، اور ترقی کا شریک بنے۔"

عرب میڈیا فورم کے 24ویں ایڈیشن کے دوسرے دن کی افتتاحی تقریب میں دبئی میڈیا کونسل کی نائب صدر اور منیجنگ ڈائریکٹر، دبئی پریس کلب کی صدر، اور عرب میڈیا سمٹ کی آرگنائزنگ کمیٹی کی چیئرپرسن مونا غانم المری نے شرکاء کا خیرمقدم کیا۔

انہوں نے کہاکہ، "آپ کی لگن اور وابستگی کے باعث یہ ایونٹ عرب میڈیا کے مستقبل کی تشکیل کا سب سے اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ گزشتہ برس کے بعد بہت کچھ بدل چکا ہے— ذرائع، کردار اور سوالات سب تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہم نے مصنوعی ذہانت میں حیرت انگیز پیش رفت دیکھی ہے، اور میڈیا اداروں کو ان ٹیکنالوجیز کو اپناتے ہوئے بھی دیکھا ہے، تاہم اسی دوران ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ الگورتھمز کس طرح گمراہ کن مواد تیار کرتے ہیں اور جھوٹے بیانیے گھڑتے ہیں۔"

انہوں نے اس بدلتی ہوئی دنیا میں پیدا ہونے والے سوالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ، "سچائی کا محافظ کون ہے؟ عوام اور میڈیا کے درمیان اعتماد کی تعمیر نو کون کرے گا؟ آج، پہلے سے کہیں زیادہ، ہم پر لازم ہے کہ ہم سچ، اقدار اور اپنی شناخت کی حفاظت کریں۔ ہمیں عرب شعور کو یرغمال بننے سے اور عرب آواز کو بگاڑ سے بچانا ہے۔"

مونا المری نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا کا کردار صرف واقعات کی کوریج تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے عوامی فہم کو تشکیل دینے اور تبدیلیوں کو مناسب سیاق و سباق میں پیش کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔

انہوں نے اپنے خطاب کے اختتام پر اس امر کی ضرورت پر زور دیا کہ میڈیا کو توازن اور بصیرت سے بھرپور بحث کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حقائق اور بیانیے آج جس طرح سے آپس میں گڈمڈ ہو چکے ہیں اور پلیٹ فارمز مسابقت میں منطق کو قربان کر رہے ہیں، اس تناظر میں میڈیا کا ادارہ اعتماد پر استوار ہے اور محض ایک پیشہ ورانہ سرگرمی نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔