دبئی، 27 مئی، 2025 (وام)--قومی میڈیا دفتر اور اماراتی میڈیا کونسل کے چیئرمین عبداللہ بن محمد بن بُطی الحامد کے مطابق ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اور ان سے نمٹنے کا شعور ہی عالمی مسابقت اور میڈیا اداروں کی بقاء کا تعین کرتا ہے۔ یہ بات انہوں نے دبئی میں جاری عرب میڈیا سمٹ 2025 کے دوسرے دن منعقدہ 23ویں عرب میڈیا فورم کے وزارتی پینل کے دوران کہی۔
الحامد نے کہا کہ دنیا بھر میں میڈیا تیزی سے روایتی ذرائع سے تکنیکی بنیادوں پر قائم پلیٹ فارمز کی طرف منتقل ہو رہا ہے، اور ایسے ادارے جو جدید ٹیکنالوجی کو اپنا نہیں پاتے، وہ جلد منظر سے غائب ہو جائیں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہم ابھی اس تبدیلی کے ابتدائی مراحل میں ہیں، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تیز ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید ٹولز کو ذمہ داری اور شعور کے ساتھ استعمال کرنا ناگزیر ہے۔
اس نشست میں متعدد عرب ممالک کے میڈیا قائدین نے شرکت کی، جن میں کویت کے وزیر اطلاعات و ثقافت عبد الرحمن المطیری، بحرین کے وزیر اطلاعات ڈاکٹر رمضان بن عبداللہ النعیمی، مصر کے نیشنل میڈیا اتھارٹی کے سربراہ احمد المسلمانی، اور لبنان کے وزیر اطلاعات پال مرکوس شامل تھے۔ سیشن کی نظامت دبئی میڈیا انکارپوریشن کی میڈیا ماہر ہند النقبی نے کی۔
عبد الرحمن المطیری نے بتایا کہ عرب عوام کی تقریباً 70 فیصد خبریں سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، لہٰذا اداروں کو رفتار، شفافیت اور اعتبار پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کی ساکھ کو اخلاقی ضابطوں اور اسٹریٹجک ہم آہنگی کے ذریعے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
احمد المسلمانی نے زور دیا کہ عرب اتحاد کو نظریاتی مفادات سے ہٹا کر مشترکہ اقدار اور اصولوں پر استوار کیا جائے تاکہ ہم آہنگ اور ترقی پذیر عرب معاشرہ تشکیل پا سکے۔
لبنانی وزیر اطلاعات پال مرکوس نے عرب میڈیا اداروں میں مواد کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ٹیکنالوجی کی منتقلی آسان ہو گی، خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے تناظر میں۔ انہوں نے تجویز دی کہ میڈیا کے لیے نئے قوانین وضع کیے جائیں جو تکنیکی تبدیلیوں کے مطابق ہوں۔
بحرین کے ڈاکٹر رمضان النعیمی نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی، خاص طور پر AI، کو اختیار کیے بغیر مؤثر عربی مواد تیار کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے ادارہ جاتی تربیت پر زور دیتے ہوئے نوجوانوں کے کردار کو بھی اہم قرار دیا جو اس تبدیلی کے علمبردار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق میڈیا اور ٹیلی کمیونیکیشن قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ شعبے باہم جڑے ہوئے ہیں۔
احمد المسلمانی نے کہا کہ میڈیا کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھا جانا چاہیے، بلکہ یہ قومی کامیابیوں کا آئینہ دار اور سائنسی و ترقیاتی پیش رفت کا ساتھی ہونا چاہیے۔
ان خیالات کو تقویت دیتے ہوئے آل حامد نے کہا کہ میڈیا اداروں کو اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لاتے ہوئے عوام سے براہ راست جڑنا ہو گا تاکہ ان کی شکایات اور ضروریات کو سمجھا جا سکے۔ بصورت دیگر وہ اپنا سامعین کھو بیٹھیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض عالمی میڈیا ادارے اپنی ناظرین کی 60 فیصد تعداد کھو چکے ہیں، جبکہ انفرادی آوازیں تیزی سے اثر و رسوخ حاصل کر رہی ہیں۔
الحامد نے خبردار کیا کہ جدید میڈیا پلیٹ فارمز سرحدوں سے ماورا ہو چکے ہیں اور وہ قومی قوانین یا ثقافتی اقدار کی پرواہ نہیں کرتے۔ اس لیے اداروں کو نئی ٹیکنالوجی فوری طور پر اپنانے، مواد کی بہتری اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے اسکول کے طلباء کے لیے میڈیا خواندگی (Media Literacy) کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو درست اور غلط خبروں میں فرق کرنے اور ڈیجیٹل دنیا میں محتاط رہنے کی تربیت دینا ضروری ہے۔
عبد الرحمن المطیری نے اپنے اختتامی کلمات میں ادارہ جاتی یادداشت اور ماضی کی کامیابیوں سے سیکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ کویت میں ایسی میڈیا پلیٹ فارمز کا آغاز کیا گیا ہے جو تکنیکی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہیں اور عرب شناخت کا پرچار کرتے ہیں۔ ان کے بقول، "جتنا میڈیا سماجی شعور سے ہم آہنگ ہو گا، اتنا ہی پائیدار اور ترقی یافتہ بنے گا۔"
انہوں نے عرب میڈیا سمٹ کو عرب میڈیا اداروں کی تشکیل نو اور مستقبل کے تقاضوں کے مطابق ان کی تیاری کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم قرار دیا۔