غزہ، 15 جون، 2025 (وام)--اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے ترجمان جیمز ایلڈر نے اتوار کے روز کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی خاندانوں کو اپنے بچوں کے لیے یومیہ ایک وقت کا کھانا فراہم کرنا بھی انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
انہوں نے غزہ کی انسانی صورتحال کو ’’تاریک، ہولناک اور ناامید کن‘‘ قرار دیا، اور کہا کہ خوراک سے کہیں زیادہ مقدار میں بم اور میزائل اس محصور علاقے میں داخل ہو رہے ہیں۔
ایلڈر کے مطابق، جنگ بندی سے متعلق مختصر امیدیں اب تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ، ’’ایک مختصر وقت کے لیے امداد میں کچھ اضافہ اور پانی و خوراک کی فراہمی میں معمولی بہتری دیکھنے میں آئی، لیکن یہ امید بھی جلد ہی مکمل محاصرے کے سبب ماند پڑ گئی، جس نے انسانی امداد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے خاندان ہر رات فضائی حملوں کی زد میں رہتے ہیں اور دن کو بھوک اور دھماکوں سے بچنے کی کوششوں میں گزارتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’انسانی برداشت کی تمام حدیں ٹوٹ چکی ہیں۔‘‘
ایلڈر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کئی خاندان گزشتہ چھ ماہ سے ٹینٹوں میں رہائش پذیر ہیں اور مسلسل ٹینکوں کی گولہ باری کے سائے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پچھلے 600 دنوں سے اس تباہ کن حقیقت کا سامنا کر رہا ہے۔
ترجمان کے مطابق، غذائی قلت کے شکار بچوں کی یومیہ یا ہفتہ وار اموات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں، کیونکہ وہ معمولی بیماریوں کے باعث زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔
انہوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ بیمار یا غذائی قلت کے شکار بچوں کے لیے اسپتال پہنچنا بھی اب محفوظ نہیں رہا۔ موجودہ حالات میں غزہ کے 19 فعال اسپتالوں میں سے صرف آٹھ عوامی شعبے سے وابستہ ہیں اور ان میں بھی بنیادی طبی سہولیات اور ادویات کی شدید کمی ہے۔