شارجہ، 25 جون، 2025 (وام)--شارجہ کے ریتیلے صحراؤں میں ہونے والی ایک انقلابی دریافت نے ابتدائی انسانی تاریخ سے متعلق معلومات کو نئی جہت عطا کر دی ہے۔ بین الاقوامی سائنسی جریدے ‘آثار قدیمہ اور بشریات سائنس’ میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق، انسانی آبادی نے جبل فایا کے علاقے میں تقریباً 80 ہزار سال قبل مستقل سکونت اختیار کی تھی، جبکہ اس خطے میں انسانی موجودگی کی مجموعی تاریخ 2 لاکھ 10 ہزار سال پر محیط ہے۔
یہ دریافت شارجہ آثار قدیمہ اتھارٹی (SAA)، جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیوبنگن، یونیورسٹی آف فرائی برگ، اور برطانیہ کی آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی کے اشتراک سے کی گئی، جس کی مالی معاونت جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن اور ہائیڈلبرگ اکیڈمی آف سائنسز نے فراہم کی۔
تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ابتدائی ہومو سیپیئنز محض عرب خطے سے گزرنے والے نہیں تھے، بلکہ انہوں نے یہاں کے متغیر موسم سے ہم آہنگ ہو کر طویل قیام، بقا اور ثقافتی ترقی کی بنیاد رکھی۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ، ڈاکٹر کنوٹ بریٹزکے نے وضاحت کی کہ دریافت شدہ پتھریلے اوزار محض شکار کے آلات نہیں بلکہ ذہانت، منصوبہ بندی اور وسائل کے مؤثر استعمال کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اوزاروں کو بائی ڈائریکشنل ریڈکشن کے ذریعے تیار کیا گیا، جو کہ ایک نادر اور مہارت طلب تکنیک ہے۔
یہ اوزار شکار، گوشت کاٹنے، پودوں کی تیاری اور دیگر اوزار بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ٹیکنالوجی بقا کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ثقافت کا حصہ بھی تھی۔
تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا کہ جبل فایا کا علاقہ محض عبوری مقام نہیں بلکہ مستقل انسانی قیام کی جگہ تھا۔ لیمینیسنس ڈیٹنگ کے ذریعے محققین نے یہ ثابت کیا کہ مختلف موسمی ادوار کے دوران یہاں مسلسل یا وقفے وقفے سے انسانی موجودگی رہی ہے۔
یہ دریافت "میرین آئسوٹوپ اسٹیج 5a" (MIS 5a) کے آخری مرحلے سے منسلک ہے، جو کہ غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں کا دور تھا۔ اس دور میں مون سون ہواؤں کی وجہ سے عرب کے صحراؤں میں سبزہ، جھیلیں اور چراگاہیں وجود میں آئیں، جو انسانوں کے قیام کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتی تھیں۔
اس موقع پر شارجہ آثار قدیمہ اتھارٹی کے ڈائریکٹر عیسیٰ یوسف نے کہاکہ، "جبل فایا میں ہونے والی دریافت نہ صرف سائنسی اہمیت رکھتی ہے بلکہ یہ انسانی استقامت، موافقت اور جدت کا مظہر بھی ہے۔ ہم جب فایا پیلیولینڈ اسکیپ کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ماضی ہماری شناخت اور مستقبل کو تشکیل دیتا ہے۔"
اس تحقیق نے نہ صرف شارجہ کو آثاریاتی تحقیق میں قائدانہ مقام دیا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر ثقافتی ورثے کے تحفظ کا مرکز بھی بنایا ہے۔